فیس بُک سے دماغی بیماریوں کی تشخیص اورعلاج
، برطانیہ
بین الاقوامی طبّی جریدے ’’دی لینسٹ سائیکاٹری‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دماغی بیماریوں کی تشخیص اور(ممکنہ طور پر) علاج میں فیس بُک پر کسی شخص کی سرگرمیوں سے خاصی مدد لی جاسکتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج، برطانیہ میں نفسیاتی علاج (سائیکاٹری) کی ماہر ڈاکٹر بیکی انکسٹر اور ان کے ساتھیوں نے 2004ء میں فیس بُک کی ابتداء سے لے کر آج تک اس سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ہونے والی چیدہ چیدہ سرگرمیوں کا جائزہ لیا؛ جبکہ سوشل میڈیا پرکئے گئے سابقہ مطالعات بھی استعمال کئے۔
تفصیلی تجزیئے کے بعد انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فیس بُک پراسٹیٹس اپ ڈیٹس، کمنٹس، شیئرز، لائکس، فرینڈ، ان فرینڈ اورایسی دوسری سرگرمیوں کو مدنظررکھتے ہوئے کسی شخص میں ڈپریشن (اضمحلال) اورشیزوفرینیا (اسکیزوفرینیا) جیسی نفسیاتی بیماریوں کی نہ صرف بروقت تشخیص کی جاسکتی ہے بلکہ ان کا ممکنہ علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال مسلسل بڑھتا جارہا ہے جہاں ہرعمر، ہر طبقے اور ہر طرح کی سوچ رکھنے والے افراد اپنے خیالات کا اظہار بڑی آزادی سے کرسکتے ہیں۔ البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اظہارِ خیال کی یہی آزادی جس میں دوست بنانے، رائے دینے، دوسرے کی بات آگے پہنچانے اور پسند یا ناپسند جیسے شخصی رجحانات شامل ہیں، ہمارے سامنے کسی بھی فرد کی شخصیت کو آئینے کی طرح صاف کردیتے ہیں۔
جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ لوگ نفسیاتی معالج کو اپنے بارے میں جو کچھ بھی بتاتے ہیں اس کے مقابلے میں ان کی کہیں زیادہ معلومات سوشل میڈیا پر ان کی متواتر سرگرمیوں کی بنیاد پر حاصل کی جاسکتی ہیں؛ اور یہ بات خاص طور پر نوجوانوں کےلئے درست ہے۔
بیکی انکسٹرکہتی ہیں کہ اس طرح سوشل میڈیا پر کسی شخص کی سرگرمیاں نفسیاتی ماہرین کے بہت کام آسکتی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ڈپریشن کا مریض ہو تو وہ تواتر سے ایک خاص انداز میں اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا رہے گا، دوسروں کی پوسٹوں پر اس کا ردِعمل بھی اسی مخصوص انداز کے تابع ہوگا جبکہ وہ ڈپریشن کا پتا دینے والی پوسٹس خاصے تواتر سے شیئر بھی کرائے گا۔ سوشل میڈیا پر اس شخص کی یہ تمام سرگرمیاں مجموعی طور پر نہ صرف ڈپریشن کی کیفیت کا پتا دیں گی بلکہ اس کے نفسیاتی معالج کی رہنمائی بھی کریں گی تاکہ وہ درست سمت میں اس کا علاج بھی کرسکے۔
شیزوفرینیا اور دوسری دماغی بیماریوں میں مبتلا افراد کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ غرض یہ کہ نفسیاتی امراض/ دماغی بیماریوں کی تشخیص اور ممکنہ علاج کے ذیل میں سوشل میڈیا ایک غیرمعمولی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کےلئے نفسیاتی معالجین کو مناسب تربیت فراہم کرنا بھی ضروری ہوگا تاکہ وہ اپنے پاس آنے والے کسی نفسیاتی مریض کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا کس طرح جائزہ لیں اور بیماری کی نوعیت، شدت اور ضروری علاج کا تعین بھی کرسکیں۔
Comments
Post a Comment