فالج کہیں زندگی مفلوج نہ کردے
پاکستان میں فالج کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح خطرے کی گھنٹی ہے۔فالج کی بنیادی وجہ بلڈ پریشر ہے، جس کی زیادتی یا کمی کے سبب دماغ میں خون کی شریانوں کا بند ہو جانا یا پھٹ جانا فالج کہلاتاہے۔ جب فالج کا حملہ ہوتا ہے تو دماغ کے متاثرہ حصوں میں موجود سیلز آکسیجن اور خون کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں، اس کے نتیجے میں جسم کا پورا،آدھا یا کچھ حصہ مفلوج ہوجاتاہے۔ فالج کا حملہ اس وقت شدید ہوتا ہے جب دماغ کو خون پہنچانے والی کسی شریان میں خون اورآکسیجن بلاک ہو جائے یا پھٹ جائے، ایسی سنگین صورتحال میں فالج موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ فالج ایسا مرض نہیں ہے کہ جس سے بچنا ناممکن ہو، اگر ضروری احتیاطی تدابیر اختیارکی جائیں تو اس مرض پر قابو اور اس کے سبب پیش آنے والے ذہنی، جسمانی و مالی نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد کے علاج میں غفلت و کوتاہی ،اور احتیاطی تدابیر سے لاعلمی اس مرض کا باعث اور موات کا سبب بن رہی ہے، جس کے لیے عوامی آگاہی و شعور کی بیداری انتہائی ضروری ہے۔ اگر اعداد و شمار کا حوالہ دیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں اور جن میں سے 60 لاکھ افراد موت کو گلے لگا لیتے ہیں، فالج کا شکار ہونے والے 70 فیصد افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے جب کہ ہر 10 میں سے ایک مریض جانبر نہیں رہ پاتا۔ اعداد و شمار اس امر کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ فالج کا شکار ہونے والے 20 سے 40 فیصد مریض یہ روگ لگنے کے 3 ماہ کے اندر دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے تکلیف دہ صورتحال ہے، جہاں روزانہ کثیر تعداد میں افراد فالج کا شکار ہورہے ہیں، ہمارے ملک میں ہر 6 میں سے ایک مرد کو فالج کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہے جب کہ خواتین کے معاملے میں یہ صورتحال مزید سنگین ہے کہ پاکستان میں ہر 5 میں ایک خاتون کو فالج کے حملے کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہرسال 29 اکتوبرکا دن فالج کے مرض سے آگاہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن فالج سے آگاہی اور بچاؤکی تدابیر کیلئے عوام میں شعور بیدار کرنے کے لئے مختلف تقاریب اور واک کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ہمارے ملک میں 15سے 45 برس کی عمر والے 20 سے 25 فیصد افراد فالج کی زد میں آرہے ہیں، یہ تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یورپ اور امریکا میں حفاظتی تدابیر اور اقدامات کے سبب یہ تناسب 10 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ بدقسمتی سے 45 برس سے بڑھتی عمر والے ایک تہائی افراد خون کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار ہیں جبکہ یہ بات اور تکلیف دہ ہے کہ ان میں سے نصف تعداد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس خاموش قاتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد بھی فالج کا سبب بن رہی ہے۔ قیاس ہے کہ 2020 ء تک پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 1کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی اور اس مرض میں پاکستان کا دنیا میں چوتھا نمبر ہوگا۔ تمباکو نوشی کے مہلک اثرات سب پر عیاں ہیں مگر پھر بھی اس سے گریز اور اجتناب تو درکار کمی کا تصور بھی نہیں کیا جارہا بلکہ لوگوں میں، خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے، 5 فیصد خواتین بھی اس لت کا شکار ہیں، دوسری جانب نسوار، پان پراگ، گٹکا، شیشہ اور گانجا کے بے جا استعمال کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی اور سی بھی فالج کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں، مزید برآں سردرد، لقوہ، بھول کی عادت، نسوں کی بیماری، ہاتھ پاؤں کا سن ہوجانا، پٹھوں اور کمر کا درد، بے خوابی، چکر کا آنا، پیدائشی دماغی نقائص اور دماغی ٹی بی جیسے اعصابی امراض کو بھی نظر انداز کرنا فالج کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، مالی مسائل کے سبب بھی لوگوں میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر فالج کا مریض بننے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ڈپریشن کے شکار افراد میں فالج کا خطرہ 45 فیصد اور اس کے نتیجے میں موت کا امکان 55 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ یہ ایک المیہ ہے کہ فالج کے90 فیصد مریض علاج کے لیے ہسپتال نہیں جاتے اور موزوں علاج سے عدم توجہی برتتے ہوئے دوسرے طریقوں پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں جنگلی کبوتر کے خون کا استعمال بھی شامل ہے، دماغی فالج کے سبب قوت گویائی متاثر ہونے پر الفاظ کی نادرست ادائیگی کو جن بھوت کے اثرات گردانا جاتا ہے۔ ماہر اعصابی امراض کا کہنا ہے کہ اگر بروقت علاج پر توجہ دے دی جائے تو فالج کے مہلک اثرات سے بچاؤ ممکن ہے۔ اس ضمن میں عوامی شعور اورآگاہی بیدار کرنا بہت ضروری ہے، فالج کے نقصانات سے بچنے کے لیے تشخیص کردہ ادویات کا مسلسل استعمال لازمی ہے، نمک کا کم سے کم استعمال کرکے بھی فالج سے بچا جاسکتا ہے جب کہ زہر قاتل کی حیثیت رکھنے والی تمباکو نوشی سے اجتناب زندگی کی مسرتوں میں اضافہ کر سکتا ہے، مزید برآں روزانہ 40 منٹ تک ورزش کو معمول بنالیا جائے توسودمند رہتا ہے، بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے ماہر معالج کے مشوروں پر عمل کیا جائے، بلڈ پریشر کواعتدال پر رکھا جائے تو فالج کے امکانات 25 فیصد کم ہوجاتے ہیں، علاوہ ازیں ذیابیطس اور کولیسٹرول کو قابو میں رکھنا لازمی ہے۔اس کے علاوہ مرغن غذاؤں کی بجائے پھلوں اور سبزیوں کا استعمال فالج کے خطرے کو 52 فیصد تک کم کرتا ہے۔ سیب ، ناشپاتی ،کیلے، گوبھی، کھیرے، لہسن اور پیاز وغیرہ کا مناسب استعمال بھی اس حوالے سے فائدہ مندہے۔ فالج کے حملے کی علامات میں مریض کی زبان کا بند ہوجانا اور بولنے کی صلاحیت معطل ہوجانا، ہاتھ اور پاؤں کی معذوری اور بینائی کا چلا جانا شامل ہے، فالج کا حملہ ہونے پر مریض کو 3 گھنٹے میں موزوں اسپتال پہنچایا جائے تو اسے مخصوص انجکشن لگانے سے زندگی کے بچاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، دل کے امراض میں مبتلا افراد کو فالج جیسے امراض سے بچنے کے لیے خصوصی طور پر حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، ڈپریشن میں کمی لاکر فالج کو قریب آنے سے روکا جاسکتا ہے۔
Comments
Post a Comment